داخلۂ جنت کی شرائط
’’حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام رکھو، اپنے ماہِ (رمضان) کے روزے رکھو، اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اپنے حاکم (نظام و قانون) کی اطاعت کا رویہ رکھو (اس طرح) تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤگے۔‘‘، (مشکوٰۃ، رقم 571(
یہ بڑی خوبصورت اور بلیغ و جمیل روایت ہے۔ اس میں گویا کہ جنت میں داخلے کی شرائط جمع کردی گئی ہیں۔ جسے اپنے رب کی جنت درکار ہو، اس پر لازم ہے کہ اس روایت میں دی گئی ہدایات کو حرزِ جاں بنالے۔ ارشاد فرمایا: پانچ وقت کی نمازوں کا اہتمام رکھو اور برابر ان کی ادائیگی کرتے رہو۔ بندگی کی مکمل اسپرٹ اور نماز کے پورے آداب کے ساتھ اسے اپنی زندگی کا معمول بنائے رکھو۔ نمازوں کا اہتمام گویا کہ ہر وقت خدا کی بندگی اور اس کی یاد کی کیفیت میں جینا اور ہر آن و لمحہ اس بات کا منتظر رہنا ہے کہ کب میرے آقا و مولیٰ کا بلاوا آئے اور میں لبیک کی صدا لگاتا ہوا اس کی بارگاہِ بے نیاز میں سراپا عجز و بندگی بن کر حاضر ہوجاؤں۔
آگے فرمایا: ماہِ رمضان کے روزے رکھو۔ یعنی اس ماہِ صیام میں خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کی مجسم تصویر بن جاؤ۔ اس کے اشارۂ ابرو پر اپنی جائز ضروریات کی تکمیل تک سے رک جاؤ۔ رمضان کے روزے اصلاً ایک مؤ ثر قسم کی ٹریننگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بندۂ مؤمن اس ماہ میں روزے رکھ کر صبر و برداشت، حدود کی پابندی اور خدا کے احکام و فرامین کی سرفروشانہ اطاعت و پیروی کی مشق کرتا اور اپنے نفس کے بے لگام گھوڑے کو قابو میں رکھنے کی ٹریننگ حاصل کرتا ہے۔
اس کے بعد زکوٰۃ کی ادائیگی کی تلقین ہے۔ زکوٰۃ خدا کے دیے ہوئے مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کا وہ کم سے کم مطالبہ ہے جو قانوناً فرض کیا گیا ہے۔ ورنہ بندۂ مؤمن سے اصلاً مطلوب یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت سخاوت و فیاضی، غرباء پروری اور نصرتِ دین کے لیے انفاق و قربانی کی تصویر بنا رہے۔ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ خدا کی بخشش و عنایت اور اسی کا دیا ہوا ہے۔ اس کا بہترین مصرف اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ خدا کی خوشنودی کی خاطر اس کے بندوں کی امداد و بہبود اور اس کے دین کے فروغ و اشاعت کے راستے میں خرچ ہو۔
اس کے بعد ہدایت فرمائی کہ اپنے اولو الامر کی اطاعت کرو۔ قانون و نظام کے تابع اور پابند رہو۔ یہ ہدایت اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ آج مسلمان اسے تقریباً بھلا چکے ہیں۔ وہ اس بات سے بالکل ناواقف ہیں کہ مسلمان کبھی قانون شکن نہیں ہوتا۔ وہ اپنے تمام معاملات اور ذمے داریاں قانون کے دائرے اور حدود کے اندر رہ کر سرانجام دیتا ہے۔ وہ لوگوں کو ایذا دینے اور نقصان پہنچانے والا نہیں ہوتا۔ وہ سماج میں انتشار، انارکی، بدامنی، وحشت و دہشت اور عدمِ تحفظ کے تلخ احساسات کو فروغ دینے والا نہیں ہوتا۔ یہ چیز اور وصف کوئی نفلی معاملہ یا محض فضیلت کی چیز نہیں ہے بلکہ اس روایت کی روشنی میں یہ داخلۂ جنت کی لازمی شرائط کی حیثیت رکھتی ہے۔ بندۂ مؤمن جب اپنے ملک و معاشرے کے قوانین کی پیروی کرتا ہے تو وہ خدا و رسول کے حکم و تعلیم پر بھی عمل کررہا ہوتا ہے۔ اسی طرح قانون شکنی اور قانون کی خلاف ورزی کا رویہ اختیار کرنے کی صورت میں وہ خدا و رسول کی نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے۔
روایت کے مطابق یہ وہ اوصاف، خصلتیں اور کردار ہے جو ایک بندۂ مؤمن کو جنت کا حق دار بناتا ہے۔ روایت کے خوبصورت الفاظ ایک مرتبہ پھر ذہن نشین کرلیجیے: فرمایا: اپنی پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام رکھو، اپنے ماہِ (رمضان) کے روزے رکھو، اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اپنے حاکم (نظام و قانون) کی اطاعت کرتے رہو (اس طرح) تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤگے۔
A look from you is as blinding as the sun
As stunning as your eyes I lose myself in
A look from you is as pure as the clear blue sky
When I'm with you
Every minute I'm not around you
I feel like I left something behind.
Every time I'm not looking at you
I feel like I am blind
~
"Sade Jism Ne Vakh Vich Is Duniya ,
Chalo Maniya Tahiyo Aeh Duriya Ne
Par Milde Jad Appan Har Janam De Vich,
Fer Is Janam Das Ki Majboriyan Ne"